Header Ads

Hakal Sulemani AOR Masjid Aqsa / ہیکل سلیمانی اور مسجد اقصیٰ

"‏ہیکل سلیمانی اور مسجد اقصی کی تاریخ" 


تقریباً ایک ہزار قبل مسیح میں حضرت داود علیہ السلام  نے یروشلم کو دار الخلافہ بنایا تھا بلکہ کہا جاتا ہے کہ اس کا نام یروشلم بھی انہوں نے ہی رکھا تھا۔ ان کی وفات 971 قبل مسیح میں ہوئی۔ ان کے وارث حضرت سلیمان علیہ السلام ہوئے اور ان کی وفات 931 قبل مسیح میں ہوئی۔ حضرت سلیمان علیہ السلام  نے 960 قبل مسیح میں ایک عبادت گاہ بنائی تھی کہ جسے یہود-ی، ہیکل سلیمان کا نام دیتے ہیں۔ ہماری روایتوں میں اسے مسجد اقصی کہا جاتا ہے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے پہلی مسجد جو تعمیر ہوئی، مسجد حرام ہے۔ اور دوسری مسجد جو تعمیر ہوئی، مسجد اقصی ہے۔ اور قرآن مجید نے واضح طور مسجد اقصی، بیت المقدس ہی کو کہا ہے۔

حضرت سلیمان علیہ السلام  کے بعد ان کی سلطنت دو حصوں میں تقسیم ہو گئی؛ شمالی ریاست سامریہ اور جنوبی ریاست یہودیہ۔ یہودی اس تقسیم کا الزام حضرت سلیمان علیہ السلام کو دیتے ہیں، معاذ اللہ۔ ان کے نزدیک یہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے گناہوں کی سزا تھی کہ انہوں نے غیر اسرائیلی عورتوں سے شادیاں کیں اور ان عورتوں نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو بت پرستی پر لگا دیا۔ اس پر اللہ کی طرف سے یہ سزا دی گئی کہ ان کی وفات کے بعد یہ سلطنت تقسیم ہو گئی حالانکہ یہ یہودیوں کے اپنے کرتوتوں کی سزا تھی۔  خیر یہ یہودی سلطنتیں آپس میں لڑتی رہتی تھیں لہذا کمزور ہو گئیں۔ 586 قبل مسیح میں بابل کے حکمران بخت نصر  نے یروشلم کو فتح کر کے شہر کو تباہ وبرباد کر دیا، ہیکل کر گرا دیا اور ہزاروں یہودیوں کو قیدی بنا کر اپنے ساتھ بابل [عراق]  لے گیا۔

539 قبل مسیح میں ایران کے بادشاہ خسرو  [ذو القرنین]  نے بابل کو فتح کیا اور یہودیوں کو واپس یروشلم بھیجا۔ ہیکل کی دوبارہ تعمیر 516 قبل مسیح میں ہوئی۔ اور یہ ستر عیسوی تک قائم رہا۔ ذو القرنین یعنی سائرس دی گریٹ کے زمانے میں ہی اس کی دوسری تعمیر شروع ہو چکی تھی جو دارا اول کے دور میں مکمل ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ دوسری تعمیر کی بنیادیں وہی تھیں جو حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور کی تھیں۔

شمعون مکابی یا حسمونی [Simon Thassi]  نے ہیکل کو تیسری مرتبہ تعمیر کروایا تھا۔ اس کا زمانہ 142 تا 135 قبل مسیح کا ہے کیونکہ 332 قبل مسیح میں سکندر اعظم نے یروشلم پر قبضہ کر لیا تھا۔ 168 قبل مسیح میں دوبارہ یہودی ریاست قائم ہو گئی جو مکابییین کی سلطنت کہلاتی تھی، یہ انقلابی تھے۔ لیکن 70 عیسوی میں ٹائیٹس رومی نے اس سلطنت کو دوبارہ تباہ کردیا تھا۔ بعض اسرائیلی ماہرین آثار قدیمہ اور محققین جیسا کہ بنیامین مازار کا کہنا ہے کہ ہیکل سلیمانی، اول اور دوم، دونوں حرم شریف سے باہر تھے اور شہر داود [city of David] میں تھے اور یہ مقام اوفل [Ophel] کہلاتا ہے جو کہ ایک پہاڑی کا نام ہے اور بائبل میں بھی اس کا ذکر کثرت سے ہے۔ ان کے بقول شمعون حسمونی  نے ہیکل کو مقام اوفل سے ہٹا کر حرم شریف میں تعمیر کروا دیا تھا۔ اس کے بعد ہیرودیس اعظم [Herod the Great] رومیوں کا باج گزار ایک یہودی حکمران تھا کہ جس کا زمانہ 72 سے 4 قبل مسیح کا ہے، نے اسی ہیکل کی توسیع بھی کی تھی۔  اسی تیسری تعمیر کی ایک دیوار تا حال باقی ہے جسے دیوار گریہ کہتے ہیں۔ 

70 عیسوی میں ٹائیٹس رومی نے یہود-ی ریاست پر حملے کر کے اسے تباہ کر دیا اور تیسرا ہیکل بھی گرا دیا۔ اس کی ایک دیوار باقی ہے کہ جسے دیوار گریہ کہتے ہیں۔ یہاں یہود-ی جا کر عبادت وغیرہ کرتے ہیں۔ قرآن مجید میں جس کو مسجد اقصی کہاگیا ہے، وہ یہ کل احاطہ ہے کہ جسے آج کل حرم شریف کہا جاتا ہے۔ لیکن ایک مسجد حضرت عمر نے بھی 15 ہجری میں اسی احاطے میں تعمیر کروائی تھی اور یہ بھی بعد میں مسجد اقصی کے نام سے معروف ہو گئی۔ شروع میں اسے مسجد عمر ہی کہا جاتا ہے۔ بعد میں اس کا نام مسجد اقصی پڑ گیا۔ 

   حرم شریف (temple mount) ایک احاطے یا چار دیواری کا نام ہے جو قدیم یروشلم شہر میں موجود ہے۔ قرآن مجید میں اسی حرم شریف کو مسجد اقصی کہا گیا ہے۔ اس کا کل رقبہ کوئی 37 ایکٹر  یعنی 296 کنال ہے۔ اسی حرم شریف کے احاطے میں وہ مسجد اقصی بھی موجود ہے کہ جسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تعمیر کروایا تھا۔ اور اسی حرم شریف میں قبۃ الصخرہ بھی ہے کہ جسے اموی خلیفہ عبد الملک بن مروان  نے 685ء تا 691ء میں  تعمیر کروایا تھا۔ یہ گنبد ایک چٹان کے اوپر بنایا گیا تھا کہ جس کے بارے مسلم روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معراج کا سفر یہاں سے شروع ہوا تھا۔ یہودی روایت کے مطابق اس چٹان پر حضرت ابراہیم نے اپنے بیٹے اسحاق کی قربانی دی تھی۔ اور بعض کے نزدیک اسی چٹان پر ہی ہیکل سلیمانی تھا۔ حرم شریف میں وہ دیوار گریہ بھی ہے کہ جو ہیکل سلیمانی دوم  یا سوم کی ایک بقیہ دیوار ہے۔ [جاری ہے]

No comments:

Powered by Blogger.